امید پر کمپیٹیشن غزل
ذرا سی رات ڈھل جائے تو شاید نیند آ جائے
امید ہیکہ ذرا سا دل بہل جائے تو شاید نیند آ جائے
ابھی تو کرب ہے بے چینیاں ہیں بے قراری ہے
امیدہیکہ طبیعت کچھ سنبھل جائے تو شاید نیند آ جائے
ہوا کے نرم جھونکوں نے جگایا تیری یادوں کو
امید ہیکہ ہوا کا رخ بدل جائے تو شاید نیند آ جائے
یہ طوفاں آنسوؤں کا جو امڈ آیا ہے پلکوں تک
امیدہیکہ کسی صورت یہ ٹل جائے تو شاید نیند آ جائے
یہ ہنستا مسکراتا قافلہ جو چاند تاروں کا
امید ہیسلمان آگے نکل جائے تو شاید نیند آ جائے
از قلم سلمان احمد نزیری✍️
Dr. SAGHEER AHMAD SIDDIQUI
18-Oct-2021 04:36 PM
Good
Reply
آسی عباد الرحمٰن وانی
18-Oct-2021 04:27 PM
Bht khoob
Reply